the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ روتوراج گائیکواڑ چنئی سپر کنگز کے لیے اچھے کپتان ثابت ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے

مرحوم مفتی صاحب کشمیر کی سیاست میں ایک بار پھر یاد کئے جانے لگے ہے. سن 2002 میں جب پہلی بار پی ڈی پی کی حکومت کشمیر میں بنی تو لوگ محبوبہ کی جگہ مفتی صاحب کو وزیر اعلی دیکھ کر حیران تھے کیونکہ کشمیر میں لوگوں نے محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کو ووٹ دیا تھا. لیکن کانگریس کی ضد کی وجہ سے محبوبہ مفتی کے بجائے مفتی صاحب کو مشترکہ حکومت کی کمان ملی. طویل عرصے کے بعد یا یوں کہے کہ کشمیر میں یہ پہلا موقع تھا جب لوگوں کا بھروسہ انتخابی عمل میں واپس آیا تھا. اٹل جی نے انتخابات کو فری اور فیئر كرواکر پی ڈی پی کو نیشنل کانفرنس کے متبادل کر دیا تھا وہی مفتی صاحب وہ پہلے سی ایم تھے جنہوں نے نہ صرف لوگوں کا دل جیتا بلکہ کشمیر کی سیاست میں اپنے کو قائم کیا تھا. بی جے پی آج واجپئی کے دور سے آگے نکل چکی ہے تو پی ڈی پی میں ریاست سے زیادہ فکر اس بات کو لے کر ہے کہ پارٹی کی حالات اگلے انتخابات میں کیسےہونگے-؟

جمعہ کے روز آئی ایس یا پاکستانی پرچم لہرانے کی خبر کو نظر انداز کر دے تو نیشنل نیوز کے ٹیسٹ میں یہاں کی کوئی خبر جگہ نہیں بنا پاتی ہے. یہ اس کشمیر کی حالت ہے جو تقریبا ہر دن خبروں کی سرخیوں میں ہوتی تھی. تو کیا کشمیر نے سیاسی طور پر زیادہ سنجیدگی کا احساس کرایا ہے یا پھر لوگوں نے سیاستدانوں کو احساس کرایا ہے کہ اب بس کرو! لیکن سیاسی لیڈر بس! کہنے کو تیار نہیں ہے 10 ماہ چلی پی ڈی پی-بی جے پی حکومت مفتی صاحب کے بعد کیوں نہیں چل پا رہی ہے یہ ایک بڑا سوال ہے، یا یوں کہے کہ بی جے پی بمقابلہ پی ڈی پی کو جموں بمقابلہ کشمیر میں تبدیل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے. اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گزشتہ ساٹھ برسوں کے کشمیر مرکوز سیاست کو جموں ریجن سے چیلنج ملی ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ریاست کے نظرانداز شدہ طبقے اس دور میں سیاسی طور پر مضبوط ہوئے ہے. لیکن عام لوگوں کی پریشانی اس کام نہیں ہوئی ہے سیاستدانوں نے اسے اپنا ووٹ بینک مان کر ہر وقت الیکشن کو لے کر تیار بیٹھے ہیں. محبوبہ مفتی اگلے پانچ



سال ایک بہتر کشمیر کا ماڈل پیش کر سکتی تھی لیکن اس کی فکر کشمیر کم انتخابات زیادہ ہے.

سابق سی ایم عمر عبداللہ کہتے ہیں کہ کشمیر میں ترقی کوئی ایجنڈا نہیں ہو سکتا، معاشی پكیج بے معنی ہے تو محبوبہ مفتی یہ مان بیٹھی ہے کہ انکا رویہ ہی ان کی شناخت ہے. یعنی بی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے یا ساتھ چلنے کی بات پی ڈی پی کے لئے خود کش ثابت ہو سکتی ہے پھر جموں اور لداخ کے لوگ محبوبہ مفتی کی حکومت پر کس طرح یقین کریں، یہ بھی سوال ہے. سوال یہ بھی ہے کہ دفعہ 370 یا ایک ملک ایک قانون ساز لے کر بی جے پی کشمیر کے عام اور خاص میں کس طرح اعتماد پیدا کر سکتی ہے. پی ڈی پی حکومت میں اپنے پاپولر پالیسی کے ذریعے مفتی سعید نے حریت کے ليڈرو کو اپنی زمین تلاش کرنے پر مجبور کر دیا تھا. کشمیر کی سیاست میں اپنی چمک کھو چکے جذبات کی نمائندگی کرنے والے لوگ سماجی مسائل کو لے کر گاؤں گاؤں گھومنے لگے تھے. ان کی حیثیت معاشرے میں پاکستان کے ایجنٹ کے طور پر رہ گئی تھی. لیکن عمر عبداللہ کے دور میں انہیں کئی ایسے موقع ملے جس نے دوبارہ اپنے کو قائم کیا. یعنی کشمیر میں جمہوریت مضبوط ہوگی آئینی حکومت کا زور ہوگا تو علیحدگی پسندی کمزور ہو گا، جس کا استعمال مفتی صاحب نے کر دکھایا تھا. عمر عبداللہ میں یہ جرات نہیں تھی جس کی وجہ سے پنچایت کے چنے ہوئے 36000 عوامی نمائندے اپنی کوئی سماجی کردار نہیں بنا سکے. یہی جرات کا اثر محبوبہ میں بھی ہے یا اسے اپنی مقبولیت کا غلط اندازہ ہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے کہ حکومت میں رہے یا اپوزیشن میں. لیکن سب سے بڑا منصوبہ یہ ہے کہ مودی حکومت برسوں پرانے کے ایک چاپلوس نوکر شاہ کے ذریعے ریاست کو چلانا چاہتی ہے. عام لوگوں کے لئے کشمیر کا مسئلہ پاکستان سے منسلک نہیں ہے یہ وزیر اعظم مودی کو سمجھنا ہوگا. پاکستان کو لے کر ان کے پالیسی کو سراہا جا سکتا ہے لیکن کشمیر کو لے کر ان کی خاموشی اور خاموش بیٹھے رھنے کی کوشش ملک کو مهنگا ثابت ہو سکتا ہے.


اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.